اسلام آباد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 12 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے، اس حوالے سے ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ اگر سفارشات کی منظوری دی گئی تو سرکاری ملازمین کی تھنخواہ میں اضافے کا اطلاق جولائی 2024ء سے ہو جائے گی تاہم اس ضمن میں کسی بھی قسم کے حتمی فیصلے کا اعلان حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔
اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کے معاشی حالات چیلنجنگ ہیں لیکن مشکلات کے باوجود بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کی کوشش کریں گے،فضول اور شاہ خرچیوں میں کمی لائیں گے ، مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو تنگ بنایا ہوا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ مہنگائی کا متبادل نہیں ہے،یہ حقیقت ہے کہ غریب آدمی روز کے اخراجات بڑی مشکل سے برداشت کرتا ہے۔علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بیوروکریٹس کے لیے تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کی صورت میں ریوارڈ پروگرام کا عندیہ بھی دے چکے ہیں، وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو کم سے کم معاشی تحفظ دیا جا سکتا ہے، تمام سیکریٹریوں کی پیشہ وارانہ قابلیت مساوی نہیں، اعلیٰ کارکردگی والوں کیلئے موزوں انعام اور ناقص کارکردگی والوں سے نااہلی پر جوابدہی ہوگی، اعلیٰ کارکردگی والوں کو ویسی ہی مراعات دی جائیں گی جو 2008ء میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب پولیس اور لاء افسروں کو تنخواہوں میں 100 فیصد کے ساتھ دیں۔ادھر ورلڈ بینک نے تنخواہ دار اور دیگر طبقات پر انکم ٹیکس شرح برابر کرنے کا مطالبہ کردیا، عالمی بینک کا پاکستان سے کہنا ہے کہ ذاتی آمدن ٹیکس کو تنخواہ دار اور دیگر طبقات کے لیے برابر بنایا جائے، جنرل سیلز ٹیکس کے نظام میں موجود خرابیان دور کی جائیں اور تمباکو کی صنعت کو ایک ہی پریمیم شرح پر ٹیکس وصول کیا جائے، اس کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا طریقہ کار اپنانے کی بجائے ہر قسم کے ریگولیٹرز کو ایک ہی بڑے ادارے کے اندر لایا جائے اور ایک مرکزی نظام کے تحت لایاجائے تاکہ مرکز اور صوبوں کے مابین رابطہ کاری بہتر ہوسکے۔عالمی بینک نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت مجموعی قومی پیداوار میں جنرل سیلز ٹیکس کا کل حصہ 2 اعشاریہ 7 فیصد ہے، اگر تمام اقسام کے کم کیے گئے ٹیکس و استثنیٰ اور دیگر ترغیبات ختم کر دی جائیں تو یہ مجموعی قومی پیداوار کا 6 اعشاریہ 53 فیصد بن سکتا ہے، اسی طرح تمباکو پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی ایک ہی پریمیم شرح متعارف کرائی جائے، اس سے مجموعی قومی پیداوار میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا حصہ 0 اعشاریہ 19 فیصد سے بڑھ کر 1 اعشاریہ 09 فیصد ہوجائے گا جس سے ٹیکس کلیکشن 1000 ارب سے بڑھ سکتا ہے۔