سلام اباد ہائی کورٹ کی جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ کوئی کسی طرف سے پریس کانفرنس کرتا ہے تو کرتا رہے کوئی فرق نہیں پڑتا تفصیلات کے مطابق اسلام اباد ہائی کورٹ میں لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس محسن اختر کیانی اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ الزام ہے کہ مبینہ طور پر بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں وہ کھاتے پیتے بھی ہوں گے خرچ ریاست برداشت کرتی ہیں ایجنسیوں کی فنڈز کا کوئی سالانہ اڈٹ ہوتا ہے جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز ہوتے رہیں گے عدالتیں کام کرتی رہیں گی کوئی پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عدالتیں ان تمام چیزوں سے ماورا ہوتی ہیں جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں اپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ سر یہ بہت مشکل سوال ہے اس معاملے کو اگر حل نہیں کیا تو مسائل بڑھیں گے عدالت میں اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس ہے اس میں بھی اپ ائیں اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کیس میں بھی ضرور اؤں گا میڈیا کو اس معاملے میں ساتھ دینا چاہیے تاکہ منفی چیزیں اجاگر نہ ہوں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اپ یہ چاہتے کہ میڈیا جج برہم نہ چلائے ان کی اس بات پر عدالت میں قہقہےلگ گئے بعد ازاں جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کو عدالتی سوال نامے کے جوابات ائندہ سماعت پر جمع کرنے کی ہدایت کر دی اور کیس کی سماعت 14 جون تک کے لیے ملتوی کر دی گئی