؛أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ؛بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡــئَلُوۡا عَنۡ اَشۡيَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَـكُمۡ تَسُؤۡكُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَسۡـئَـلُوۡا عَنۡهَا حِيۡنَ يُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَـكُمۡ ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهَا‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ ۞

خبر کی تفصیل

ایوب خان کی فوجی حکومت نے اپنے قیام کے تین ماہ کے اندر ہی 21 جنوری 1959 کو ایک کمیشن کا تقرر کیا جس کے سربراہ چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے۔

image
اپ لوڈ کی تاریخ : Oct/24/2022

ارشد شریف اتوار کی شب کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے اور پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

یہ واضح نہیں کہ ارشد شریف کینیا میں کیا کر رہے تھے تاہم کینیا کی پولیس کے ترجمان برونو شیوسو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ارشد شریف کی موت کے پسِ منظر کے حالات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

کینیا کی پولیس کی جانب سے اس واقعے کی جو ابتدائی رپورٹ مگدائی پولیس سٹیشن میں جمع کروائی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف جس کار میں سفر کر رہے تھے پولیس نے اسے مسروقہ سمجھا اور جب وہ عارضی رکاوٹوں کے باوجود نہیں رکی تو اس پر فائرنگ کی گئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولیس حکام نے اس رپورٹ کے اصل ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے مطابق ’فائرنگ اور ایک غیر ملکی شہری کی موت کی اطلاع سب سے پہلے 23 اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے موصول ہوئی تھی‘۔

رپورٹ کے مطابق ’پولیس کو ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ فائرنگ کے ایک واقعے میں کینیا کی پولیس سروس کے دستے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے افسران ملوث تھے اور اس کے نتیجے میں لگ بھگ 50 سالہ پاکستانی شہری ارشد شریف فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں‘۔

فائرنگ کے واقعے کی اس پولیس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف اس کار میں سفر کر رہے تھے جس کا رجسٹریشن نمبر کے ڈی جی 200 ایم تھا۔