چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کے پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کی دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظر انداز کیا نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں اگر برا کیا ہے تو نام لے کر کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پریس کلب جا کر کانفرنس کی اپ پارلیمان میں بات کر سکتے تھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی خاص مقصد کے تحت یہ کیا گیا ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس کی اس کے بعد مصطفی کمال بھی بولے اگر اصلاح کا طریقہ کار ہے تو رجسٹرار یا مجھے لکھ کر دیں تو ہم بہتری لائیں گے جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپ ادارے کی خلاف چڑھ دوڑیں اس سے عدلیہ پر اعتماد ختم ہوگا ادارے عوام کے ہوتے ہیں اداروں کو بے عزت کرنا ملک کی خدمت نہیں ازادی اظہار اور توہین عدالت سے متعلق ائین و قانون پڑھیں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا ججز کو نہیں دی جا سکتی بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ماضی میں ججز کے کام ہمارے کھاتے میں نہ ڈالے جائیں دونوں کو بلا لیتے ہیں تنقید ہمارے منہ پر کر دیں عدالت نے کہا کہ دو ہفتے میں وضاحت دیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے