؛أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ؛بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡــئَلُوۡا عَنۡ اَشۡيَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَـكُمۡ تَسُؤۡكُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَسۡـئَـلُوۡا عَنۡهَا حِيۡنَ يُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَـكُمۡ ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهَا‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ ۞

خبر کی تفصیل

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہر ایک کنٹرول سے باہر ہو گئی

خبر کی ویڈیو

اپ لوڈ کی تاریخ : Nov/04/2022

کراچی (اسٹاف رپورٹر)
سندھ بلڈنگ کنٹرول ہر کنٹرول سے باہر ہو گئی کراچی شہر میں متعارف کرائے جانے والا پٹا سسٹم دن با دن طاقتور ہوتا جا رہا  ہے

اس پٹا سسٹم کے روح رواں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک معمولی سے ملازم بلڈنگ انسپکٹر شہزاد آرائیں ہیں جو کہ ہیں تو معمولی سی پوسٹ پر تعینات لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے بڑے ادارے کو اپنی انگلیوں پر نچا تے ہوئے نظر آتے ہیں

ان معصوف کے سامنے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اسحاق کھوڑو بھی پانی کم چائے ہیں کراچی جہاں آئے روز ناقص مٹیریل کی وجہ سے چھتیں گرنے  کے واقعات زور پکڑ رہے ہیں وہی یہ ایس بی سی اے کے رشوت خور افسران کراچی میں قائم پٹہ سسٹم سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں  اور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں

جنہیں کراچی میں پوچھنے والا کوئی نہیں سینئر بلڈنگ انسپکٹر شہزاد آرائیں اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی شہر بالخصوص کراچی ساؤتھ کو بلڈنگوں کا جنگل بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل جہاں کراچی شہر کے تمام علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں وہی ڈائریکٹر جنرل کی مثال سرکس کے شیر کی مانند ہے

 کراچی شہر میں ناجائز تعمیرات کی روک تھام کے لیے بنائے گئے تمام منصوبے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور کراچی شہر میں قائم پٹہ سسٹم نے  سب کو بے بس کردیا ہےپورے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے پر شہزاد آرائیں کی حکمرانی ہے باوثوق ذرائع کے مطابق آنجناب کو ایک بااثر سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے شہزاد آرائیں نامی یہ شخص کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو خاطر میں نہیں لاتا حتی کہ رشوت کی روک تھام کے لیے بنایا گیا معتبر ادارہ سندھ اینٹی کرپشن  کو بھی شہزاد آرائیں نے اپنی گھر کی لونڈیاں بنا کر رکھا ہوا ہے اینٹی کرپشن سندھ کو اپنی جیب میں رکھ کر  گھومنے والا شہزاد آرائیں اب ہیریٹیج ڈیپارٹمنٹ پر بھی اپنی نظریں گاڑے بیٹھے ہیں اور جہاں بھی آثار قدیمہ کی  کوئی بلڈنگ نظر آتی ہے وہاں مقامی بلڈر سے ساز باز کرکے انہیں آثارقدیمہ کی بلڈنگ کو توڑ کر نیں تعمیرات کرنے کی اجازت دلوا دیتا ہے کراچی ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہیریٹیج کی لسٹ میں شامل پلاٹس کو بے دردی سے توڑا جا رہا ہے اور خوب مال بنایا جا رہا ہے شہزاد آرائیں کے سامنے نہ تو کوئی قاعدہ ہے  اور نہ ہی کوئی قانون ہے اس طاقتور پٹہ  سسٹم کی بہتی گنگا میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ساؤتھ کے ڈائریکٹر آصف رضوی ڈپٹی ڈائریکٹر ساؤتھ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی راشد علی ناریجو سینئر بلڈنگ انسپکٹر احسن علی خشک اور بلڈنگ انسپکٹر عمر ڈاؤ بھی خوب  غوتے لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں

باوثوق ذرائع کی جانب سے سندھ بلڈنگ کنٹرول آفس میں فائل کی اپرول کمپلیشن وغیرہ کے لیے آنے والے لوگوں کو مغلظات بکیں  کا بھی انکشاف ہوا ہے ایس بی سی اے کے باوثوق ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ آنے والے ساحل سے بھاری رقم رشوت کی مد میں طلب کی جاتی ہے چاہے اس کا کام لیگل ہی کیوں نہ ہو رشوت نہ دینے کی صورت میں فائلز کو اٹھا کر ان کے منہ پر مارا جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سرکاری فیس دینے کا شوق ہے تو دو لیکن درباری فیس لازمی دینے ہونگے باوثوق ذرائع کے مطابق صرف ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں تین سو سے زائد غیر قانونی تعمیرات جاری ہیں اس غیر قانونی تعمیرات کے بے تاج بادشاہ شہزاد آرائیں کو سمجھا جاتا ہے اور  ڈائریکٹر  ساؤتھ آصف رضوی راشد علی ناریجوعمیر ڈائیو احسن خوشک  پیسے چھاپنے والی مشین بن چکا ہے انہیں پیسے کی ہوس میں کچھ نظر نہیں آ رہا ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور اینٹی کرپشن افسران کی طرح ہیریٹیج ڈیپارٹمنٹ بھی ہیریٹیج بلڈنگوں کو نقصان پہنچانے پر  خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں  

زیر نظر آنے والی تصویر آنے والے چند ماہ میں  نسلا ٹاور  ثابت ہوگی ڈسٹرکٹ ساوتھ میں  موجود پلاٹ نمبر (wo 66/2) کسی زمانے میں ایک ہیریٹیج بلڈنگ ہوتی تھی جہاں اب آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ نیں بلڈنگ تعمیر کر دی گئی ہے جبکہ (ot1. 18) پر غیر قانونی تعمیرات جاری ہے اور(20/4 pr1) جو کہ پہلے سے تعمیر شدہ بلڈنگ ہے اس پر ساتواں ایکسٹرا فلور ڈالا جا رہا ہے جس سے پوچھنے والا کوئی نہیں کراچی کی عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اس غیر قانونی تعمیرات کو روکنے  میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ سندھ گورنمنٹ کے کسی بھی ادارے یا حکومت سندھ میں یہ طاقت نہیں بچی کہ شہزاد آرائیں جیسے  طاقتور پٹہ سسٹم کو ختم کر سکے