اس کہانی کی ابتدا لگ بھگ 15 سال پہلے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے علاقے ’بولے دی جھگی‘ سے ہوئی جب تبسم کی عمر فقط 16 برس تھی۔ تبسم کے والد ایک امام مسجد تھے اور گھر کی قریبی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
تبسم کو پڑھائی کا بہت شوق تھا اور اسی لیے ان کے والدین نے گھر کے قریب ایک نجی سکول میں پڑھانے والے محمد صدیق کو بطور ہوم ٹیوٹر رکھ لیا تاکہ وہ تبسم کی پڑھائی میں مدد کر سکیں۔
صدیق ہر روز شام کے وقت گھر کی بیٹھک میں تبسم کو پڑھانے آیا کرتے تھے۔ تبسم کی والدہ حفیظاں بی بی کے مطابق پڑھائی کے دوران کوئی تبسم کو تنگ نہیں کرتا تھا تاکہ وہ امتحانات کی اچھے سے تیاری کر سکیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز مغرب کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ گھر کی بیٹھک خالی ہے اور تبسم بھی آس پاس نہیں۔ اہلخانہ گھر کے قریب واقع صدیق کے گھر پہنچے مگر وہاں دروازے پر پہلے سے تالہ پڑا ہوا تھا۔ ہمسائیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
تبسم کے والدین کو اس وقت تک یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ تبسم کا ضروری سامان بھی گھر پر موجود نہیں تھا اور جلد ہی انھیں پتا چلا کہ تبسم اپنے استاد صدیق کے ساتھ گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔